حال ہی میں جب صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ واضح اعلان سامنے آیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر پارلیمان میں ہونے والی کارروائی میں مداخلت کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے تو اس کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب حکومت کے پاس اس قرارداد پر ووٹنگ کروانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کیے گئے صدارتی ریفرنس پر ہونے والی سماعت کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا سپیکر چاہے بھی تو اس قرارداد پر ہونے والی ایوان کی کارروائی کو زیادہ دنوں تک مؤخر نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں انتخابات اور پارلیمان پر گہری نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز اینڈ پروسیجر کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد جمع ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 14 روز کے اندر اندر جب بھی بلایا جائے گا تو اجلاس کے پہلے دن کے ایجنڈے پر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد بھی شامل ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی طرف سے جب قرارداد ایوان میں پیش کر دی جائے تو سپیکر پر یہ لازم ہوگا کہ اس پر ضابطہ کار کے مطابق کارروائی کرے۔طریقہ کار بتاتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ سپیکر قرارداد پیش ہونے کے بعد اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کروائے گا۔

’اگر اس قرارداد کے حق میں زیادہ ووٹ آئے تو پھر اس قرارداد پر بحث کے لیے تین سے چار دن مقرر کیے جائیں گے جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان اس قرارداد کے خلاف اور حق میں اپنی تقاریر کریں گے۔‘واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق 25 مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا کیونکہ یہ روایت رہی ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا کوئی رکن وفات پا جائے تو فاتحہ خوانی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا جاتا ہے۔

تاہم پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک روایت ضرور رہی ہے کہ اگر کوئی رکن قومی اسمبلی وفات پا جائے تو اس اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کردیا جاتا ہے لیکن قانون یا قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی کا سپیکر چاہے تو فاتحہ خوانی کے بعد بھی اسمبلی کی کارروائی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر پر یہ آئینی طور پر لازم ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہونے کے سات روز کے اندر اندر اس پر رائے شماری کروائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے دوران اگر منحرف ارکان اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو یہ ووٹ شمار کیا جائے گا اور سپیکر کے پاس ایسا کوئی اختیار قانون یا قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں درج نہیں ہے کہ وہ ایسے کسی منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کرے گا۔

’آئین کی شق 63 (الف) بڑی واضح ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف اُس وقت ہو گا جب کوئی منحرف رکن اس کا ارتکاب کرے گا۔ محض اندیشوں کی بنیاد پر کسی بھی رکن کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اس کو سزا دی جا سکتی ہے۔‘

پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے مگر اس میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

’عدالتی رائے پر عمل درآمد لازمی نہیں‘

ماہر قانون حامد خان سے جب اسی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر جو بھی رائے ہو گی اس پر عمل درآمد کرنا لازمی نہیں ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کسی معاملے کی تشریح کر دے تو اس پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران پاکستان کے چیف جسٹس نے یہ واضح کیا ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی رکن کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا تو قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ اگر کوئی منحرف رکن ووٹ کاسٹ کرے تو اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ سپیکر کے استحقاق اور اختیارات میں بہت فرق ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے کیا گیا ایسا اقدام جو کہ آئین سے متصادم ہو تو اس کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ ماضی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کرنے کے الزام میں نااہل کیا گیا تھا تو اس وقت کی قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا نے یوسف رضا گیلانی کو بطور رکن قومی اسمبلی ڈی سیٹ کرنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد ان کے اس فیصلے کو قومی اسمبلی میں چیلنج کیا گیا۔

اسی واقعے کے بارے میں حامد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے سپیکر کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی بحیثیت رکن قومی کی نشست کو اس روز سے ہی خالی تصور کیا جائے جس دن انھیں توہین عدالت میں سزا سنائی گئی تھی۔