پاکستان میں سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور جہاں ایک جانب قومی اسمبلی کے سپیکر نے اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا ہے وہیں وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آئے روز جلسے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر جہاں اپوزیشن جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور منحرف اراکین کے خلاف بیان بازی کی، وہیں ان اراکین سے واپسی کا فیصلہ کرنے پر کوئی کارروائی نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ عمران خان نے منحرف اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ارکان غلطی کر بیٹھے ہیں، آپ واپس آجائیں، میں آپ کو معاف کر دوں گا، آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔‘ تاہم اس سے قبل انھوں نے ان منحرف اراکین کو ’ضمیر فروش‘ بھی قرار دیا اور انھیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیشہ کے لیے آپ کے نام کے ساتھ لگ جائے گا کہ آپ ضمیر فروش ہیں، آپ کے لیے شادیوں میں جانا مشکل ہو جائے گا، لوگ آپ کے بچوں کے ساتھ شادیاں نہیں کریں گے۔‘ عمران خان نے 27 مارچ کے جلسے کی تھیم یعنی ’امربالمعروف‘ کے بارے میں تفصیل سے بات کی اور کہا کہ ’اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہو اور برائی کے خلاف کھڑے ہو۔ اللہ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ تم نیوٹرل رہ جاؤ نہ ادھر، نہ ادھر۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ نے اپنے معاشرے کو بچانا ہے، بدی کے خلاف لڑنا ہے، جہاد لڑنی ہے۔ عوام پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ ان سودہ کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہوں۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کبھی کبھی قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن وقت آتا ہے، جب قوم کے سامنے دو راستے آ جاتے ہیں۔ ’ایک طرف پاکستان کے بڑے بڑے نامور ڈاکو اکھٹے ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے 25 سال ان کے خلاف جنگ کی ہے۔ ملک کے سامنے فیصلہ کن وقت آ گیا ہے۔‘ انھوں نے سندھ ہاؤس میں منحرف اراکین کے جمع ہونے کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک کی عدلیہ بھی دیکھ رہی ہے، ہمارے ملک کی الیکشن کمیشن بھی دیکھ رہی ہے، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، اور ساری قوم کے سامنے اسے جمہوریت کہا جا رہا ہے۔‘ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈاکو ہمارے ایم این ایز کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ جو بات کر رہے ہیں کہ ہمارے ضمیر جاگ گئے ہیں اسے کوئی نہیں مانے گا۔ اب پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کن لوگوں نے اپنے ضمیر کا سودا کر کے اپنا ووٹ فروخت کیا۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بھی لوگوں نے کہا آپ بھی پیسہ لگا کر ان اراکین کو واپس لے آئیں لیکن مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے، عوام کا پیسہ دے کر حکومت بچانے سے بہتر ہے حکومت چلی جائے۔‘ انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’تین غلاموں نے باہر کے لوگوں کے پاؤں پکڑ کر سازش کی، تینوں غلام میری بات سن لو تم میچ بری طرح ہارنے والے ہو۔ ’1992 کا ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے آسٹریلیا جانے سے قبل میں کہتا تھا کہ ورلڈ کپ ہم جیتیں گے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ میچ بھی ہم جیتیں گے۔‘ قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب، اپوزیشن کا سپیکر پر آئین شکنی کا الزام اس سے قبل، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی ریکوزیشن پر سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ صبح گیارہ بجے کو طلب کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اعلامیے کے مطابق یہ اسمبلی کا 41 واں اجلاس ہوگا۔ روایت کے تحت اس اجلاس کا پہلا دن اسمبلی کے ایک وفات پانے والے رکن کی فاتحہ تک ہی محدود رہے گا۔ تاہم تحریک عدم اعتماد پر کارروائی اور ووٹنگ کے لیے اجلاس کب طلب کیا جائے، اس بارے میں ابھی واضح نہیں ہے۔ حکام کے مطابق جمعے کو اجلاس ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پھر سنیچر اور اتوار یعنی 26 اور 27 کو کارروائی نہیں ہوگی اور پھر 27 مارچ کو ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ہی اس تحریک پر کارروائی آگے بڑھائی جا سکے گی۔ اپوزیشن نے 14 دن میں اجلاس نہ بلانے پر سپیکر کو سنگین آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا ہے جبکہ سپیکر اسد قیصر نے وضاحت دی ہے کہ او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے کوئی موزوں عمارت دستیاب نہ ہونے کی وہ سے وہ 14 دن کے اندر اجلاس بلانے سے قاصر ہیں۔ قومی اسمبلی کے اعلامیے میں ’تحریک عدم اعتماد‘ سے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے تاہم اپوزیشن نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی نہ ہوئی تو پھر وہ احتجاج کریں گے۔ اجلاس تاخیر سے بلانے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں اور اپوزیشن آمنے سامنے اپوزیشن رہنماؤں نے سپیکر قومی اسمبلی پر آئین شکنی کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریکوزیشن کے بعد اجلاس کو 14 دن میں بلانا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن کی ریکوزیشن کی تاریخ 21 مارچ کو مکمل ہوتی ہے مگر سپیکر نے سنگین جرم کیا ہے اور (اب وہ) آرٹیکل 6 کے تحت آئیں گے۔ شیری رحمان نے الزام عائد کیا ہے کہ ’یہ وقت حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ آئین کے بالکل ماورا ہے۔ سپیکر پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔‘ شیری رحمان نے تجویز دی ہے کہ قومی اسمبلی اجلاس میں 15 منٹ پہلے دعا کر لیں پھر کچھ دیر تک اجلاس ملتوی کر دیں اور پھر دوبارہ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھائیں۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اجلاس میں دو گھنٹے کے اندر عدم اعتماد تحریک پیش ہو جائے تاکہ پھر سات دن تک اس پر ووٹنگ ہو سکے۔ تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کا اجلاس کب ہوگا کے سوال پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ’مجھے ابھی نہیں پتا کہ سپیکر کب اجلاس بلا رہے ہیں۔‘ تاہم ان کے مطابق ’سپیکر کو خاص حالات میں اجلاس ملتوی کرنے کی اجازت حاصل ہے۔‘ اپنی دلیل کا حوالہ انھوں نے خواجہ صفدر کے ساتھ اپنی ایک پرانی ملاقات کا دیا کہ انھوں نے انھیں یہ بات بتائی تھی۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اپنے مؤقف کے بارے میں آئینی دلیلیں بھی پیش کر رہی ہیں۔ اتوار کو پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 54 کی کلاز 3 کے تحت ایک چوتھائی ارکان ریکوزیشن درخواست جمع کرائیں تو سپیکر اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ ان کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 54 میں لکھا ہے کہ سپیکر صاحب 14 روز سے زائد تاخیر نہیں کرسکتے۔‘ ان کے مطابق ’رول 37 سپیکر کو پابند کرتا ہے کہ وہ اجلاس کے آغاز اور تلاوت کے فوری بعد تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کرے، اس کے علاوہ وہ کوئی اور کارروائی ایوان میں نہیں کرسکتا۔ تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت کے بعد سپیکر صاحب اجلاس ملتوی نہیں کرسکتے۔‘ ان کے مطابق آئینی و قانونی شقوں سے روگردانی آئین شکنی ہے جو ملک سے غداری اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ اپوزیشن رہنما سپیکر کے کردار کے حوالے سے بارہا اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور سنیچر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اس خدشے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا تھا۔ شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپیکر بن کر اپنا کردار ادا کریں ’ورنہ تاریخ میں ان کا نام بہت ہی برے الفاظ میں لکھا جائے گا۔‘ انھوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ عمران خان کا آلہ کار نہ بنیں اور ’جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیں، ورنہ تاریخ اور عوام آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ اسد قیصر کی پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں شرکت منصب کی توہین ہے۔‘ شہباز شریف کے جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب تحریکِ عدم اعتماد کو ’ملتوی‘ کرنے کے حوالے سے چہ مگوئیاں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اتوار کو اپنے تحریری آرڈر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ آئین کے تحت 14 دن میں ریکوزیشن پر اجلاس طلب کرنے کے پابند تھے مگر او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی عمارت میں اس وقت تزئین و آرائش کا کام جاری ہے جبکہ اسلام آباد میں کوئی اور ایسی عمارت دستیاب نہیں تھی جہاں یہ اجلاس منعقد کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے سے اجلاس کے لیے جگہ مانگی مگر پورے اسلام آباد میں کوئی جگہ نہیں ملی۔ سپیکر کے مطابق اسمبلی نے رواں برس جنوری میں یہ قرارداد پاس کی تھی کہ قومی اسمبلی کا ہال او آئی سی اجلاس کے لیے دے دیا جائے۔ اسد قیصر کے مطابق وہ آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پہلے دستیاب دن یعنی جمعے والے دن 25 مارچ کو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر یہ اجلاس طلب کر رہے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان کے مطابق او آئی سی کی آڑ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن نے او آئی سی کے اجلاس کو مدنظر رکھ کر قومی اسمبلی اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق 21 مارچ کو اجلاس طلب کر کے تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کر کے پھر اس اجلاس کو او آئی سی کے اجلاس کے بعد تک ملتوی کیا جا سکتا تھا۔ حکمراں جماعت کا ڈی چوک جلسہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر سیاسی درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہوتے دکھائی دے رہا ہے، جہاں پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ اتوار کو وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ وہ 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں عوام کی اتنی بڑی تعداد دیکھنا چاہتے ہیں کہ تمام گذشتہ ریکارڈ ٹوٹ جائیں۔ خیال رہے کہ پاکستان کی سیاست میں ڈی چوک کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سے قبل جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے ڈی چوک میں پاکستان مسلم لیگ ن کی گذشتہ حکومت کے خلاف 126 دن تک کا طویل دھرنا دیا تھا۔ اب اپنی حکومت بچانے کے لیے بھی عمران خان نے ڈی چوک کا انتخاب کیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے، جس سے سیاسی کارکنان میں تصادم کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیحکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس سے قبل حکومت اور اپوزیشن دونوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ اپنے اپنے جلسے منسوخ کر دیں۔ انھوں نے خاص طور پر تحریک انصاف کو یہ مشورہ دیا کہ حکومتیں احتجاج اور مظاہرے نہیں کرتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر عمران خان اپنا جلسہ ملتوی کر دیں تو پھر اپوزیشن بھی اپنا لائحہ عمل بنا سکتی ہے۔ شیخ رشید نے کے مطابق وزیراعظم عمران خان اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اس جلسے کو ’امر باالمعروف‘ کے تھیم کے تحت کر رہیں ہیں یعنی ہم حق کا پرچار کر رہے ہیں۔ اپنے ٹویٹ میں بھی انھوں نے یہ کہا ہے کہ ’ہم حق کے ساتھ کھڑے ہیں اور سیاسی مافیاز کی جانب سےاپنا چوری کا مال بچانے کے لیے اہلِ سیاست کے ضمیروں کی ایسی شرمناک نیلامی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘ اس سے قبل عمران خان نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے قرآن میں یہ حوالہ دیا ہے کہ جب اچھائی اور برائی ہو رہی ہو تو پھر آپ کو اچھائی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتا ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد اپوزیشن نے ان پر کڑی تنقید کی اور ان کے بیان کی وضاحت مانگی ہے۔ں۔