جنگ کے سائے اور آگ و بارود کے دھوئیں میں آگے کا


راستہ دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ میدان جنگ سے آنے والی خبریں، سفارتی شور و کوششیں، غمزدہ اور بے گھر افراد کے جذبات؛ یہ سب ذہن پر بہت زیادہ بوجھ ڈال سکتا ہے۔

تو آئیے ایک لمحے کے لیے غور کرتے ہیں کہ یوکرین میں جنگ کیسے ختم ہو سکتی ہے اور کچھ ممکنہ منظرنامے کیا ہیں جن کا سیاست دان اور عسکری منصوبہ ساز جائزہ لے رہے ہیں؟

بہت کم لوگ اعتماد کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں، لیکن یہاں کچھ ممکنہ نتائج ہیں۔ مگر ان میں سے زیادہ تر تاریک یا کمزور ہیں۔

line

قلیل مدتی جنگ

پہلے ممکنہ منظر نامے کے تحت روس اپنی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یوکرین بھر میں اندھا دھند گولہ باری اور راکٹ حملے ہو رہے ہیں۔ اب تک ایک کم اہم کردار ادا کرنے والی روسی فضائیہ تباہ کن فضائی حملے شروع کر دیتی ہے۔ یوکرین میں بڑے پیمانے پر سائبر حملے شروع ہوتے ہیں جو اہم قومی انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہیں۔

ملک بھر میں بجلی اور مواصلات کا نظام منقطع ہو جاتا ہے۔ ہزاروں یوکرینی شہری مارے جاتے ہیں۔ سخت اور دلیرانہ مزاحمت کے باوجود، کیئو پر دنوں میں قبضہ ہو جاتا ہے۔ یوکرینی حکومت کو ماسکو نواز کٹھ پتلی حکومت سے بدل دیا جاتا ہے۔

یوکرینی صدر زیلنسکی کو یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا وہ مغربی یوکرین یا ملک سے فرار ہو کر جلا وطنی میں حکومت قائم کرتے ہیں۔ صدر پوتن فتح کا اعلان کرتے ہیں اور کچھ فوج کو یوکرین سے پیچھے ہٹا دیتے ہیں لیکن ملک پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے کافی فوج کو ملک میں ہی رہنے دیتے ہیں۔

ہزاروں یوکرینی پناہ گزینوں کا مغرب کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ یوکرین کا بھی بیلاروس کی طرح ماسکو کی ذیلی یا حمایتی ریاست کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

یہ نتیجہ کسی بھی طرح سے ناممکن نہیں ہے لیکن اس کا انحصار بدلتے ہوئے کئی عوامل پر ہو گا جیسا کہ روسی افواج بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اس تناظر میں مزید فوج کو تعینات کیا جائے، اور یوکرین کا غیر معمولی جنگی جذبہ ختم ہو جائے۔

صدر پوتن کیئو میں حکومت کی تبدیلی اور یوکرین کے مغربی انضمام کا خاتمہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن کوئی بھی روس نواز حکومت ناجائز تصور ہو گی اور ملک شورش کا شکار رہے گا۔ اس طرح کا نتیجہ غیر مستحکم ہو گا اور دوبارہ تنازعات کے پھوٹ پڑنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

طویل جنگ

دوسری صورت میں شاید زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ ایک طویل جنگ کی شکل اختیار کر لے۔ ہو سکتا ہے کہ روسی فوجیں پست ہو جائیں، کم حوصلے، ناقص لاجسٹکس اور نااہل قیادت ان کی راہ کی رکاوٹ بن جائے۔

ہو سکتا ہے کہ روسی افواج کو کیئو جیسے شہروں کو محفوظ بنانے میں زیادہ وقت لگے کیونکہ اس کے محافظ شہری فوج سے گوریلا جنگ شروع کر دیں یا لڑائی گلیوں میں شروع ہو۔

ایسی صورت میں شہر کا طویل محاصرہ رہے گا۔ یہ لڑائی 1990 کی دہائی میں چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی پر قبضہ کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر تباہ کرنے کے لیے روس کی طویل اور وحشیانہ کوشش کی تاریخ دہرائے گی۔

اگر روسی افواج یوکرین کے شہروں میں اپنی کچھ تسلط برقرار کر لیتی ہیں تو بھی شاید وہ وہاں کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ روس اتنے وسیع ملک کا احاطہ کرنے کے لیے کافی فوج فراہم نہ کر سکے۔

ایسے میں ہو سکتا ہے کہ یوکرین کی فوج مقامی افراد کی حمایت حاصل کر کے ایک مؤثر مزاحمت اور شورش کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور مغرب انھیں ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتا رہے۔

اور پھر شاید کئی برسوں کے بعد ماسکو میں نئی قیادت کے ساتھ روسی افواج بالآخر یوکرین سے ہار کر اور خون آلود ہو کر نکل جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے پیشرو 1989 میں ایک دہائی تک افغان عسکریت پسندوں سے لڑنے کے بعد افغانستان سے چلے گئے تھے۔